Wednesday 26 January 2022

جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا

 جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا

وہ آئینہ ہے تو اپنی صفائی کیوں نہیں دیتا

دکھائی دے رہے ہیں سامنے والوں کے ہلتے لب

مگر وہ کہہ رہے ہیں کیا سنائی کیوں نہیں دیتا

سمندر بھی تِری آنکھوں میں صحرا کی طرح گم ہے

یہاں وہ تنگئ جا کی دہائی کیوں نہیں دیتا

جب اس نے توڑ دی زنجیر دیواریں گرا دی ہیں

اسیری کے تصور سے رہائی کیوں نہیں دیتا

وہ خود سے بخش دیتا ہے جہان آب و گل مجھ کو

طلب کے باوجود آخر گدائی کیوں نہیں دیتا

اب آنکھوں سے نہیں ہاتھوں سے چھونا چاہتا ہوں

مجھے وہ وصل آمیزہ جدائی کیوں نہیں دیتا

زبیر اک بار انگلی بھی نہیں چھونے کو ملتی ہے

وہ اپنے ہشت پہلو میں رسائی کیوں نہیں دیتا


زبیر شفائی

میکش کانپوری

No comments:

Post a Comment