Wednesday 26 January 2022

ہم ہجر کو رستا دیکھ چکے

 ہم ہجر کو رِستا دیکھ چکے

ہم وصل کا چہرہ دیکھ چکے

ہم عمر کی کچی سیما پر

سب سچا جھوٹا دیکھ چکے

ہم خواب نگر کے باسی تھے

تعبیر کا رستہ دیکھ چکے

ہے زہر سا تیکھا زہریلا

ہم وقت کا لہجہ دیکھ چکے

نہ کرشن ملا نہ سکھ پایا

ہم بن کر رادھا دیکھ چکے

اب آگے دنیا کیا دیکھوں

جب تجھ سا اچھا دیکھ چکے

تم بات کرے ہو چہرے کی

ہم دل بھی کالا دیکھ چکے

کیا موت انہیں تڑپائے گی

جو عشق کا سایہ دیکھ چکے

رب ڈھونڈنے نکلے تھے اور پھر

ہم خود میں کعبہ دیکھ چکے

ہم اس سے مل کر کے زویا

چھ ماہ میں دنیا دیکھ چکے


زویا شیخ

No comments:

Post a Comment