Tuesday 25 January 2022

ہراس اک گلی سے دوسری گلی کو چل پڑا

 وبا


ہراس اک گلی سے دوسری گلی کو چل پڑا

سیاہ رنگ خوف تارکول کی طرح

زمیں کی ہر سڑک پہ پھر گیا

جہاں صدا کے پنچھیوں کی بے خطر اڑان تھی

وہاں پہ اب خموشیوں کے جال ہیں

دلوں سے اٹھ کے خوف آنکھ آنکھ سے ابل پڑا

ہوا میں بے یقینیوں کی باس ہے

نگر نگر ہراس ہے

بدن بدن سے دور، ہاتھ ہاتھ سے ڈرا ہوا

بشر کھلی فضا سے خوف کھا گیا

ہوا سے خوف کھا گیا

محبتوں میں قرب کی ادا سے خوف کھا گیا 

بہار اپنی طشتری میں گل لیے کھڑی رہی

پرند ڈھونڈتے رہے

سگان کوچہ گرد ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں

آدمی کدھر گیا؟

اور آدمی نے لڑکھڑاتی سانس سے

کتاب جاں کا آخری ورق لکھا

وصال، قرب، دوستی، بہار، پیار سچ سہی

فنا کے خوف اور

بقا کی بھوک سے بڑا کوئی بھی سچ نہیں


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment