Tuesday 25 January 2022

کیوں خلوت غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے

 کیوں خلوتِ غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے

آخر تمہیں صدمہ کیا پہنچا کیا سوچ کے خود آزار ہوئے

کیوں صاف کشادہ رستوں پر تم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو

کیوں تیرہ و تار سی گلیوں میں تم آن کے خوش رفتار ہوئے

کیوں راستہ چھوڑ کے چلتے ہو کیوں لوگوں سے کتراتے ہو

کیوں چلتے پھرتے اپنے لیے تم آپ ہی اک دیوار ہوئے

کیا اٹھتے بیٹھتے سوچتے ہو کیا لکھتے پڑھتے رہتے ہو

اس عمر میں یہ بے کیفی کیوں کس واسطے نیک اطوار ہوئے

کیوں ایسے سفر پر نکلے ہو منزل نہیں جس کی کوئی بھی

کیوں راہ پہ ایسی چلتے ہو سائے بھی جہاں دیوار ہوئے

کیوں ترکِ علائق کو تم نے سمجھا ہے علاجِ غم آخر

دیکھو تو ولی صوفی بھی یہاں کس ٹھاٹ کے دنیا دار ہوئے

مایوسئ پیہم سے تم نے یارانہ یہ کیسا گانٹھا ہے

اندوہ و الم تھے جتنے بھی آخر وہ گلے کا ہار ہوئے

اس کلبۂ احزاں سے ہرگز ابھرے گا نہ سورج کوئی بھی

کب خاک ستارہ بار ہوئی کب سائے سحر آثار ہوئے

کب صبح کے نالے کام آئے کیا گریۂ نیم شبی سے ملا

اس قریۂ خواب فروشاں میں تم کس کے لیے بیدار ہوئے

بے کار الجھتے رہتے ہو کیوں الٹی سیدھی باتوں میں

یہ مرحلے وصل و ہجراں کے اب ایسے بھی کیوں دشوار ہوئے

اس کوچے کی راہ تو سمجھاؤ جس کوچے میں جانا مشکل ہے

اس شخص کا نام تو بتلاؤ تم جس کے لیے بیمار ہوئے

مشفق نے یہ باتیں سن کے کہا باتیں نہ ہوئیں اشعار ہوئے

یہ درد بٹانے والے بھی کس شان کے خوش گفتار ہوئے

صد شکر کہ خوش اسلوبی سے تکمیل کو پہنچی رسوائی

محتاج دعا تھے جو خود ہی آخر وہ مِرے غمخوار ہوئے


مشفق خواجہ

No comments:

Post a Comment