نہ ملے پھر سے جو پابندِ انا ہو کر ملے
اس سے کہنا اب جنوں سے آشنا ہو کر ملے
جب نکل آؤں محبت کی حدوں سے دور میں
یاد کا جنگل ہمیشہ سے گھنا ہو کر ملے
اس سے بہتر ہے کہ دُوری کی اذیت کاٹ لیں
رنج گر اک دوسرے کا سامنا ہو کر ملے
خاکِ وحشت میں نکھرتا ہے جمالِ عشق اور
اس خرابے میں بقا یکسر فنا ہو کر ملے
ارضِ جاں پر بس یہی کھیتی منافع بخش ہے
عشق بویا جائے تو غم دوگنا ہو کر ملے
ظل ہما
No comments:
Post a Comment