Wednesday 26 January 2022

شب فرقت کب سے کوئی سویا نہیں

 شبِ فرقت کب سے کوئی سویا نہیں

شمار زندوں میں ہے مگر گویا نہیں

مدعا میں کہتا کسے سرِ بزمِ عدو

میں لب کشا تو تھا مگر گویا نہیں

کھو دیا تُو نے مجھے کس بات پر

میں نے تو اب تک تجھے کھویا نہیں

مجھ کو ناؤ دی گئی بِنا پتوار کے

بس کہ مشکل ہے ابھی ڈبویا نہیں

پتھرا گئیں یہ آنکھیں قیامت کے لیے

ابھی صبر کا دامن کہیں کھویا نہیں

شمار سے نہ رہ جائے کوئی عزم گناہ

اسی لیے یہ دامن ابھی دھویا نہیں


قیصر مختار

No comments:

Post a Comment