میری بیاض شعر پہ وہ نام لِکھ گیا
اک خواب اور ایک حسیں شام لکھ گیا
دل اس کو ڈھونڈھتا ہے اسی کی تلاش ہے
چپکے سے اک دعا جو مِرے نام لکھ گیا
پھر اس سے کب ہو میری ملاقات دیکھیۓ
آغاز ہی میں جو مِرا انجام لکھ گیا
جلتی زمیں پہ میں ہی کھڑا تھا کوئی نہ تھا
جھونکا ہوا کا آیا تو سو نام لکھ گیا
خوشبو تھا وہ کہ ایک نئی رُت نیا سماں
چپکے سے میرے نام جو یہ شام لکھ گیا
وہ مجھ سے چھین کر مِری بینائیاں تمام
پتھر کا کیسا شہر مِرے نام لکھ گیا
خود اپنی آگ ہی میں جلا ہوں مگر رئیس
سب کے لیے مہکتی ہوئی شام لکھ گیا
احمد رئیس
No comments:
Post a Comment