گزرنے کو تو شارق اپنی ہر عالم میں گزری ہے
وہی ہے زندگی لیکن جو ان کے غم میں گزری ہے
وہ افتادِ خزاں ہو، یا بہاروں کی جنوں خیزی
قیامت ہے پہ سچ پوچھو تو ہر موسم میں گزری ہے
وہ کوئی اور ہوں گے خواہش امن و سکوں والے
یہاں تو عمر ساری کاوش پیہم میں گزری ہے
نہ پوچھ اے ہم نشیں کیا سانحے گزرے محبت میں
اسے کچھ دل سمجھتا ہے کہ جس عالم میں گزری ہے
مجھے جیسے دو عالم مل گئے جب مل گئی شارق
وہ اک ساعت محبت کی جو اس کے غم میں گزری ہے
شارق میرٹھی
No comments:
Post a Comment