Wednesday 26 January 2022

گزرنے کو تو شارق اپنی ہر عالم میں گزری ہے

 گزرنے کو تو شارق اپنی ہر عالم میں گزری ہے

وہی ہے زندگی لیکن جو ان کے غم میں گزری ہے

وہ افتادِ خزاں ہو، یا بہاروں کی جنوں خیزی

قیامت ہے پہ سچ پوچھو تو ہر موسم میں گزری ہے

وہ کوئی اور ہوں گے خواہش امن و سکوں والے

یہاں تو عمر ساری کاوش پیہم میں گزری ہے

نہ پوچھ اے ہم نشیں کیا سانحے گزرے محبت میں

اسے کچھ دل سمجھتا ہے کہ جس عالم میں گزری ہے

مجھے جیسے دو عالم مل گئے جب مل گئی شارق

وہ اک ساعت محبت کی جو اس کے غم میں گزری ہے


شارق میرٹھی

No comments:

Post a Comment