Wednesday 26 January 2022

ریت کیوں نا میں نئی عشق میں بنا دیتی

 رِیت کیوں نا میں نئی عشق میں بنا دیتی

اپنے دشمن کی تسلی کو میں کندھا دیتی

قتل کرتی سبھی خوابوں کے حسیں چہروں کو

رات پھر چھپ کے کہیں خواب وہ دفنا دیتی

تشنہ لب ایک مسافر جو کبھی لب کھولے

ایک قطرہ تو کیا میں اسے دریا دیتی

وہ کبھی مجھ کو بتاتا تو سہی رنج و غم

اور گر کچھ بھی نہ ہوتا تو دلاسہ دیتی

ساری ناراضگی چٹکی میں ہوا ہو جاتی

جب اسے پیار بھرا گال پہ تحفہ دیتی

نام تک لینے پہ پابندی گئی لگ ورنہ

میں تِرے نام کا اک پال پرندہ دیتی

کاسۂ دل لیے آیا تھا وہ در پر نازش

میرے خود ہاتھ تھے خالی میں اسے کیا دیتی


نازش غفار

No comments:

Post a Comment