وہ بچپنے کی چاہتیں تھیں عمر کے زوال تک
بچھڑ گیا ہے پر اسے ہوا نہیں ملال تک
یہ ٹہنیاں بھی کٹ گئیں بکھر گئے ہیں برگ و بار
کہ ایسی آندھیاں چلیں اتر گئی ہے چھال تک
اسے بھی میری چاہ تھی سمجھ نہیں سکی کبھی
پکارتا رہا مجھے وہ چاہتوں کے کال تک
جدائیوں کے سلسلے ہوئے تھے اس طرح دراز
گزر گئی تھی جان سے میں دید کے سوال تک
یہ فیصلہ کہ اس سے اب کبھی نہیں ملوں گی میں
مجھے لگا کہ کھینچ لی کسی نے میری کھال تک
رخسانہ سمن
No comments:
Post a Comment