Wednesday 26 January 2022

وہ بچپنے کی چاہتیں تھیں عمر کے زوال تک

 وہ بچپنے کی چاہتیں تھیں عمر کے زوال تک

بچھڑ گیا ہے پر اسے ہوا نہیں ملال تک

یہ ٹہنیاں بھی کٹ گئیں بکھر گئے ہیں برگ و بار

کہ ایسی آندھیاں چلیں اتر گئی ہے چھال تک

اسے بھی میری چاہ تھی سمجھ نہیں سکی کبھی

پکارتا رہا مجھے وہ چاہتوں کے کال تک

جدائیوں کے سلسلے ہوئے تھے اس طرح دراز

گزر گئی تھی جان سے میں دید کے سوال تک

یہ فیصلہ کہ اس سے اب کبھی نہیں ملوں گی میں

مجھے لگا کہ کھینچ لی کسی نے میری کھال تک


رخسانہ سمن

No comments:

Post a Comment