Tuesday 25 January 2022

اس نے جاتے ہوئے کہا بدلہ

 اس نے جاتے ہوئے کہا؛ بدلہ

خود سے لوں گا میں اب تِرا بدلہ

سخت سردی میں چائے آرڈر کی

ہم نے موسم سے یوں لیا بدلہ

اس دوپٹے کو چُھو کے وعدہ کر

جو بھی بدلا، وہ پائے گا بدلہ

میں تِرے نام کر تو دوں لیکن

دل بلوچن کا چاہے گا بدلہ

ایک شاعر سے بدتمیزی کا

ہم نے شعروں میں لے لیا بدلہ

یہ مِری تربیت نہیں، ورنہ

میں بتاتی تمہیں؛ ہے کیا بدلہ

میں تو چُپ ہوں مگرمِرے دشمن

تم سے لے گا مِرا خدا بدلہ

تیری دستار بھی ہے دامن بھی

میں نے پھر بھی نہیں لیا بدلہ

میں تِری بے بسی سے واقف ہوں

مجھ پہ جائز نہیں رہا بدلہ

ان فرینڈ کر کے ہو گئے ہو بلاک

بس یوں ادلے کا ہو گیا بدلہ

عشق اور ہجر کی مصیبت سے

میں نے لینا تھا، لے لیا بدلہ

ہاں یہ سچ ہے بدل گئی ایماں

کیونکہ تم سے تھا اب روا بدلہ


ایمان قیصرانی

No comments:

Post a Comment