خشک پلکوں پہ بھی نمناک ستارے ہی رہے
ہم ہمیشہ تیری یادوں کے سہارے ہی رہے
تم ہمارے نہ رہے، اور کسی کے ہو کر
ہم کسی اور کے ہو کر بھی تمہارے ہی رہے
ہم تو سمجھے تھے کہ آؤ گے ہماری خاطر
ہم نے گیسو جو سنوارے تھے سنوارے ہی رہے
خوش رہو تم کوئی الزام نہ تم پر آئے
جرم جو آپ کے تھے وہ بھی ہمارے ہی رہے
وہ کہ دریا تھا سمندر میں گرا ہے جا کر
ہم تو دریا کے کنارے تھے کنارے ہی رہے
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment