Tuesday 25 January 2022

تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر

 تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر

نیکی اسی کا نام ہے میرے حبیب کر

کیا کیا نہیں سنا تِرے بارے میں آج کل

اٹھ کر دکھا دھمال یا کچھ تو عجیب کر

پہلے بھی مفلسی کی ہوں سدرہ پہ یار میں

دامن چھڑا کے اور نہ مجھ کو غریب کر

مانوس ہو چکا ہوں میں اس عارضے سے اب

اپنا تجھے جو کام ہے جا کے طبیب کر

دیتا ہوں واسطہ میں تجھے پنجتن کا آج

اے ذاتِ لم یزل! میرے اچھے نصیب کر

ہجرت کے اس عذاب سے خائف نہیں سحر

لیکن نظر سے دور یہ میرا رقیب کر


اسد رضا سحر

No comments:

Post a Comment