تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر
نیکی اسی کا نام ہے میرے حبیب کر
کیا کیا نہیں سنا تِرے بارے میں آج کل
اٹھ کر دکھا دھمال یا کچھ تو عجیب کر
پہلے بھی مفلسی کی ہوں سدرہ پہ یار میں
دامن چھڑا کے اور نہ مجھ کو غریب کر
مانوس ہو چکا ہوں میں اس عارضے سے اب
اپنا تجھے جو کام ہے جا کے طبیب کر
دیتا ہوں واسطہ میں تجھے پنجتن کا آج
اے ذاتِ لم یزل! میرے اچھے نصیب کر
ہجرت کے اس عذاب سے خائف نہیں سحر
لیکن نظر سے دور یہ میرا رقیب کر
اسد رضا سحر
No comments:
Post a Comment