کوئی بھی بات بتانے کا حوصلہ نہیں ہے
اسے دوبارہ منانے کا حوصلہ نہیں ہے
تمہارے آنسو مِرے دل پہ آ کے گرتے ہیں
تمہیں اب اور رُلانے کا حوصلہ نہیں ہے
میں اس سے دور، بہت دور جانا چاہتا ہوں
مگر یہ سچ ہے کہ جانے کا حوصلہ نہیں ہے
میں احتجاج بھی کرتا ہوں ضبط کی لَے میں
کہ مجھ میں شور مچانے کا حوصلہ نہیں ہے
سوال، ظلم کو زنجیر ڈال سکتا ہے
جواب، اتنا زمانے کا حوصلہ نہیں ہے
چھپا کے رکھے ہوئے ہیں وہ آج بھی خالد
کسی کو خواب دکھانے کا حوصلہ نہیں ہے
خالد کھوکھر
No comments:
Post a Comment