Tuesday 25 January 2022

کوئی بھی بات بتانے کا حوصلہ نہیں ہے

 کوئی بھی بات بتانے کا حوصلہ نہیں ہے

اسے دوبارہ منانے کا حوصلہ نہیں ہے

تمہارے آنسو مِرے دل پہ آ کے گرتے ہیں

تمہیں اب اور رُلانے کا حوصلہ نہیں ہے

میں اس سے دور، بہت دور جانا چاہتا ہوں

مگر یہ سچ ہے کہ جانے کا حوصلہ نہیں ہے

میں احتجاج بھی کرتا ہوں ضبط کی لَے میں

کہ مجھ میں شور مچانے کا حوصلہ نہیں ہے

سوال، ظلم کو زنجیر ڈال سکتا ہے

جواب، اتنا زمانے کا حوصلہ نہیں ہے

چھپا کے رکھے ہوئے ہیں وہ آج بھی خالد

کسی کو خواب دکھانے کا حوصلہ نہیں ہے


خالد کھوکھر

No comments:

Post a Comment