Tuesday 25 January 2022

آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو

 آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو

پیار ہے تم سے مجھے پیار تو کر لینے دو

تم نہیں ہو تو ادھوری ہے ابھی میری حیات

آج اس بات کا اقرار تو کر لینے دو

اس کو شاید کبھی اپنا بھی خیال آتا ہو

اس بہانے ہمیں سنگھار تو کر لینے دو

عمر بھر میں نے تراشے ہیں جو پتھر کے صنم

ان سے تم پیار کا اظہار تو کر لینے دو

اپنی ہستی کو لٹایا ہے غزل جس کے لیے

آج اس شخص کا دیدار تو کر لینے دو


غزل جعفری

No comments:

Post a Comment