غم گوارا بھی نہیں غم سے کنارا بھی نہیں
اور اس زندگیٔ عشق سے چارا بھی نہیں
کس نے الٹی ہے یہ اپنے رخ تاباں سے نقاب
چاند تو چاند فلک پر کوئی تارا بھی نہیں
میں انہیں اپنا کہوں مصلحتیں اس کے خلاف
وہ مجھے غیر سمجھ لیں یہ گوارا بھی نہیں
کیا کیا ہائے یہ احساس خود آگاہی نے
اب وہاں ہوں کہ جہاں رہ کے تمہارا بھی نہیں
جانے کیا بات سمجھ لیں گے حیات اس کو وہ
ہم نے اس خوف سے ان کو تو پکارا بھی نہیں
حیات رضوی امروہوی
No comments:
Post a Comment