عارفانہ کلام نعتیہ کلام
دل ثنا خیز مہینے کی طرف کھلتا ہے
یہ سرا نور کے زینے کی طرف کھلتا ہے
نعت آور ہوں اگر خواب تو اے موجِ اجل
نیند کا متن بھی جینے کی طرف کھلتا ہے
طے شدہ ہے کہ یہاں شجرۂ خوشبو کا بھرم
آپﷺ کے عین پسینے کی طرف کھلتا ہے
نعت آرائی بھی ہے حمد سگالی کے لیے
یعنی یہ رنگ قرینے کی طرف کھلتا ہے
خواب میں بابِ نجف پر مجھے بتلایا گیا
یہی دروازہ مدینے کی طرف کھلتا ہے
یہ حقیقت درِ رحمت سے میسر ہے عقیل
درِ توحید تو سینے کی طرف کھلتا ہے
عقیل ملک
No comments:
Post a Comment