Friday, 30 March 2018

بہار آنے لگی

بہار آنے لگی
    
پھر بہار آئی، ہوا سے بوئے یار آنے لگی
پھر پپیہے کی صدا دیوانہ وار آنے لگی
پی کہاں کا شور اٹھا، حق سرّہ کا غُلغُل
کوئلیں کُوکیں، صدائے آبشار آنے لگی
کھیت جھومے، ابر مچلا، پھول مہکے، دل کھِلے
کونپلیں پھوٹیں، ہوائے مشکبار آنے لگی
قمریاں چہکیں، ہلے پودے، چلی ٹھنڈی ہوا
جام کھنکے، روئے مینا پر بہار آنے لگی
پھر نسیم دلربا چلنے لگی مستانہ وار
پھر شمیمِ طُرۂ گیسوئے یار آنے لگی
پھر سماعت سے نوائے کیف نے کی چھیڑ چھاڑ
سامنے پھر لیلیٰ نقش و نگار آنے لگی
پھر شگوفے مسکرائے، پھر چُبھی سینے میں سانس
جوؔش! یادِ یار پھر بے اختیار آنے لگی

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment