مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے
اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مِری صبح اتنی سہانی نہیں ہے
بڑا معجزانہ تھا انداز ان کا
خدا کی ہے، گھر کی ہے، کچھ دوستو کی
ہماری تو یہ زندگانی نہیں ہے
ضروری سمجھتا ہے تردید کر دے
حقیقت ہے کوئی کہانی نہیں ہے
ہواﺅں کا رخ موڑ سکتے ہیں یوں بھی
ہمارا ہنر بادبانی نہیں ہے
قیامت زبردست ہتھیار ہو گا
خدا نے مِری بات مانی نہیں ہے
تخلص نشاط اس لیے رکھ لیا ہے
کہ تقدیر میں شادمانی نہیں ہے
ارتضیٰ نشاط
No comments:
Post a Comment