Friday, 30 March 2018

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے
اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مِری صبح اتنی سہانی نہیں ہے
بڑا معجزانہ تھا انداز ان کا
کسی دور میں کوئی ثانی نہیں ہے
خدا کی ہے، گھر کی ہے، کچھ دوستو کی
ہماری تو یہ زندگانی نہیں ہے
ضروری سمجھتا ہے تردید کر دے
حقیقت ہے کوئی کہانی نہیں ہے
ہواﺅں کا رخ موڑ سکتے ہیں یوں بھی
ہمارا ہنر بادبانی نہیں ہے
قیامت زبردست ہتھیار ہو گا
خدا نے مِری بات مانی نہیں ہے
تخلص نشاط اس لیے رکھ لیا ہے
کہ تقدیر میں شادمانی نہیں ہے

ارتضیٰ نشاط

No comments:

Post a Comment