جرم جب قابلِ سزا نہ رہا
ایک بھی شخص باوفا نہ رہا
دوست دشمن، برا بھلا نہ رہا
اب تماشا کوئی نیا نہ رہا
دو قدم کا بھی فاصلہ نہ رہا
دل دھڑکتا ہے نام پر تیرے
پر وہ پہلے سا ولولہ نہ رہا
تُو نے جو دل میں آ بسایا تھا
بس وہی شہر اک بسا نہ رہا
گر ہے ممکن تو تم چلے آؤ
سامنے میرے راستہ نہ رہا
جی رہا ہوں میں زندگی اب وہ
جس کو جینے میں کچھ مزا نہ رہا
اس تعلق کا کیجئے اب کیا
جو نبھانے کا حوصلہ نہ رہا
اب یہ طوفان تھم ذرا جائے
پھر ہی دیکھیں گے، کیا رہا نہ رہا
یاد آئے گا آفتاب اسے
رات کے پاس جب دِیا نہ رہا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment