Friday 30 March 2018

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں
مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں
بڑا شور گونجا، بڑا شر اٹھا
رگیں دُکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں
سہولت سے مہمان کھیلیں شکار
درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں
سفر واپسی کا بھی ہے ناگزیر
تو پابندیاں کیوں لگا دی گئیں
کڑی دھوپ میں دوپہر کی نشاط
درختوں کی شاخیں جلا دی گیں

ارتضیٰ نشاط

No comments:

Post a Comment