Friday 30 March 2018

وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا

وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا 
کہ اس کا غم ہی مِری زیست کا بہانہ ہوا 
نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دمِ رخصت 
میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا 
نمِ صبا، مئے مہتاب عطرِ زلفِ شمیم 
وہ کیا گیا کہ کوئی کارواں روانہ ہوا 
وہ یاد یاد میں جھلکا ہے آئینے کی طرح 
اس آئینہ میں کبھی اپنا سامنا نہ ہوا 
وہ چند ساعتیں جو اس کے ساتھ گزری ہیں 
انہی کا دور رہا، اور جاودانہ ہوا 
میں اس کے ہجر کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا 
وہ آیا گھر میں مِرے اور چراغِ خانہ ہوا 
وہ لوٹ آیا ہے یا میری خود فریبی ہے 
نگاہ کہتی ہے دیکھے اسے زمانہ ہوا 
میں اپنے درد کی نسبت کو دل سمجھتا ہوں 
قفس جو ٹوٹ گیا میرا آشیانہ ہوا 
اسی کی یاد ہے سرمایۂ حیات ظفرؔ 
نہیں تو میرا ہے کیا میں ہوا ہوا نہ ہوا 

یوسف ظفر

No comments:

Post a Comment