Wednesday, 21 March 2018

جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا

جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا
شروعِ عشق ہے، وہ فطرتاً چھپائے گا
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ تیرا پیراہن چھپائے گا
تِرا علاج شفاگاہ عصرِ نَو میں نہیں
خِرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
حصارِ ضبط ہے ابرِ رواں کی پرچھائیں
ملالِ روح کو کب تک بدن چھپائے گا
نظر کا فردِ عمل سے ہے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر، یہ سیاہی کفن چھپائے گا
کسے خبر تھی کہ یہ دورِ خود غرض اک دن
جنوں سے قیمتِ دار و رسن چھپائے گا
تِرا غبار زمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا

احسان دانش

No comments:

Post a Comment