بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
ورنہ میں پھاند کے ہی سات سمندر جاؤں
دستانیں ہیں مکانوں کی زبانوں پہ رقم
پڑھ سکوں میں تو مکانوں سے بیاں کر جاؤں
میں منظم سے بھلا کیسے کروں سمجھوتا
روح کیا آۓ نظر جسم کی دیواروں میں
ان کو ڈھاؤں تو اس آئینے کے اندر جاؤں
اور دو چار مصائب کی کسر باقی ہے
یہ اٹھا لاؤں تو میں دنیا کے سفر پہ جاؤں
زہر ہے میرے رگ و پے میں محبت شاید
اپنے ہی ڈنک سے بچھو کی طرح مر جاؤں
تھک کے پتھر کی طرح بیٹھا ہوں رستے میں ظفرؔ
جانے کب اٹھ سکوں کیا جانیے کب گھر جاؤں
یوسف ظفر
No comments:
Post a Comment