Thursday 5 April 2018

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
ورنہ میں پھاند کے ہی سات سمندر جاؤں
دستانیں ہیں مکانوں کی زبانوں پہ رقم
پڑھ سکوں میں تو مکانوں سے بیاں کر جاؤں
میں منظم سے بھلا کیسے کروں سمجھوتا 
ڈوبنے والے ستاروں سے میں کیوں ڈر جاؤں
روح کیا آۓ نظر جسم کی دیواروں میں
ان کو ڈھاؤں تو اس آئینے کے اندر جاؤں
اور دو چار مصائب کی کسر باقی ہے
یہ اٹھا لاؤں تو میں دنیا کے سفر پہ جاؤں
زہر ہے میرے رگ و پے میں محبت شاید
اپنے ہی ڈنک سے بچھو کی طرح مر جاؤں
تھک کے پتھر کی طرح بیٹھا ہوں رستے میں ظفرؔ
جانے کب اٹھ سکوں کیا جانیے کب گھر جاؤں

یوسف ظفر

No comments:

Post a Comment