Thursday, 5 April 2018

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے
نہ جانے کیوں تمہارے در پہ آ جاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے
بڑی تیزی سے کشتی جس طرف بہتی چلی جائے
ہمیشہ یاد رکھنا اس طرف گرداب ملتا ہے
ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کھدّر پہنتے ہیں
اسی قیمت پہ لینے جائیں تو کمخواب ملتا ہے
ہمیشہ کے لیے اے کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں
کہ میری نیند سے اِس وقت اس کا خواب ملتا ہے
محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں
صدف سے ابرِ گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے
حقیقت ارتضیٰ کی آم کے پھل کی طرح سمجھو
بہت بکتا ہے لیکن پھر بہت نایاب ملتا ہے

ارتضیٰ نشاط

No comments:

Post a Comment