اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے
نہ جانے کیوں تمہارے در پہ آ جاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے
بڑی تیزی سے کشتی جس طرف بہتی چلی جائے
ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کھدّر پہنتے ہیں
اسی قیمت پہ لینے جائیں تو کمخواب ملتا ہے
ہمیشہ کے لیے اے کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں
کہ میری نیند سے اِس وقت اس کا خواب ملتا ہے
محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں
صدف سے ابرِ گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے
حقیقت ارتضیٰ کی آم کے پھل کی طرح سمجھو
بہت بکتا ہے لیکن پھر بہت نایاب ملتا ہے
ارتضیٰ نشاط
No comments:
Post a Comment