تجھ پر مِری محبت قربان ہو نہ جائے
یہ کفر بڑھتے بڑھتے ایمان ہو نہ جائے
اللہ ری بے نقابی اس جانِ مدعا کی
میری نگاہِ حسرت حیران ہو نہ جائے
میری طرف نہ دیکھو، اپنی نظر کو روکو
پلکوں پہ رک گیا ہے آ کر جو ایک آنسو
یہ قطرہ بڑھتے بڑھتے طوفان ہو نہ جائے
حدِ ستم تو ہے بھی حدِ وفا نہیں ہے
ظالم تِرا ستم بھی احسان ہو نہ جائے
ہوتی نہیں ہے وقعت ہوتی نہیں ہے عزت
جب تک کہ کوئی انساں انسان ہو نہ جائے
اس وقت تک مکمل ہوتا نہیں ہے کوئی
جب تک کہ خود کو اپنی پہچان ہو نہ جائے
بہزاد اس لیے میں کہتا نہیں ہوں دل کی
ڈرتا ہوں سن کے دنیا حیران ہو نہ جائے
بہزاد لکھنوی
No comments:
Post a Comment