لفظوں میں اپنے اشک پِرو کر دکھاؤں گا
میں شاعری سے درد کے سانچے بناؤں گا
چہرے سے اپنے گردِ ماہ و سال ایک دن
جھاڑوں گا، آئینے کا تمسخر اڑاؤں گا
ہر کیفیت سے لطف اٹھانا ہے شام تک
لایا ہوں ان کے در سے کبوتر خرید کر
دل کی فضا میں اب یہ پرندے اڑاؤں گا
ساحل پہ خار و خس ہوں مسافر کی شکل میں
لہروں کے ساتھ ساتھ بہت دور جاؤں گا
ممکن ہے اس کی دشمنی مہنگی پڑے مگر
میں آسماں کو اپنے ستارے دکھاؤں گا
کھینچوں گا اب زمامِ زمان و مکاں فدا
اور اہتمام سے اسے منظر پہ لاؤں گا
نوید فدا ستی
No comments:
Post a Comment