Wednesday 11 April 2018

درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا

درمیاں گر نہ تِرا وعدۂ فردا ہوتا 
کس کو منظور یہ زہرِ غمِ دنیا ہوتا 
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں 
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا 
کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی 
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا 
فلسفہ سر بہ گریباں ہے بڑی مدت سے
کچھ نہ ہوتا تو خدا جانے کہ پھر کیا ہوتا
ہم بھی نوخیز شعاعوں کی بلائیں لیتے
اپنے زنداں میں اگر کوئی دریچہ ہوتا
آپ نے حالِ دلِ زار تو پوچھا، لیکن
پوچھنا تھا تو کوئی اس کا مداوا ہوتا
دست‌ِ مفلس سے تہی تر ہے سفینہ انورؔ
اس پہنچنے سے تو ساحل پہ نہ پہنچا ہوتا

انور مسعود

No comments:

Post a Comment