رقص کرتا ہوں جام پیتا ہوں
عام ملتی ہے، عام پیتا ہوں
جھوٹ میں نے کبھی نہیں بولا
زاہدان کرام! پیتا ہوں
رخ ہے پر نور تو تعجب کیا
اتنی تیزی بھی کیا پلانے میں
آبگینے کو تھام، پیتا ہوں
کام بھی اک نماز ہے میری
ختم کرتے ہی کام پیتا ہوں
تیرے ہاتھوں سے کس کو ملتی ہے
میرے ماہِ تمام پیتا ہوں
زندگی کا سفر ہی ایسا ہے
دم بدم، گام گام، پیتا ہوں
مجھ کو مے سے بڑی محبت ہے
میں بصد احترام پیتا ہوں
مے مِرے ہونٹ چوم لیتی ہے
لے کے جب تیرا نام پیتا ہوں
شیخ و مفتی عدمؔ جب آ جائیں
بن کے ان کا امام پیتا ہوں
عبد الحمید عدم
No comments:
Post a Comment