Saturday 7 April 2018

واسوخت وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا

واسوخت

وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا
(جانے کیا اُس کا بھلا سا نام تھا)
کہنے لگی
کیا تمہیں ادراک ہے
ساتھ میرا اور تمہارا ہے فقط کچھ دیر کا
پھر تم آخر تکتے رہتے ہو مجھے ہر وقت کیوں
حسن میرا مجھ کو تم سے دور ہی لے جائے گا
اور میری یاد تم کو یاس و حسرت کے سوا
کچھ بھی دے سکتی نہیں

میں نے کہا

ہاں! ۔۔۔تمہاری بات شاید سچ ہی ہو
لیکن امکاں ہے کہیں اس امر کا
سردیوں کی سست شاموں میں کبھی
میں تمہارے ہی تصور سے غزل انشا کروں

وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا
اک ادائے ناز سے کہنے لگی

دیکھ لو 
پھر مبادا یہ نہ ہو
تم غزل کے نام پر جو بھی کہو، واسوخت ہو

اور اتنے برسوں بعد
آج میں جب سردیوں کی سست سی اک شام میں 
چاہتا ہوں کوئی تو آخر غزل انشا کروں 
اور دل کے بُت کدے میں ڈالتا ہوں جب نظر
وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا، گم ہے کہیں
اور اِس ظلمت کدے میں اک بھی بُت ایسا نہیں
جس کا رُخ اور خال و خد واضح بھی ہوں
اور ایسے میں غزل کمبخت کوئی کیا کہے

اویس ضمیر

No comments:

Post a Comment