ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے
میں چل رہا تھا زمانے شمار کرتے ہوئے
یہی کُھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا
تِری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ہوئے
میں رشکِ ریشۂ گل تھا، بدل کے سنگ ہوا
بدن کو تیرے بدن کا حصار کرتے ہوئے
مجھے ضرور کنارے پکارتے ہوں گے
مگر میں سُن نہیں پایا، پکار کرتے ہوئے
میں اضطرابِ زمانہ سے بچ نکلتا ہوں
تمہارے قول کو دل کا قرار کرتے ہوئے
جہانِ خواب کی منزل کبھی نہیں آئی
زمانے چلتے رہے، انتظار کرتے ہوئے
میں راہِ سود و زیاں سے گزرتا جاتا ہوں
کبھی گریز کبھی اختیار کرتے ہوئے
نہیں گرا مِری قاتل انا کا تاج محل
میں مر گیا ہوں خود اپنے پہ وار کرتے ہوئے
میں اور نیم دلی سے وفا کی راہ چلوں؟
میں اپنی جاں سے گزرتا ہوں پیار کرتے ہوئے
یقین چھوڑ کے نیر گُماں پکڑتا رہا
نگاہِ یار! تِرا اعتبار کرتے ہوئے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment