Friday 24 June 2022

اڑنے لگتے ہیں مگر کاٹ دئیے جاتے ہیں

اُڑنے لگتے ہیں مگر کاٹ دئیے جاتے ہیں

ہم پرندے ہیں، سو پر کاٹ دئیے جاتے ہیں

بات آتی ہے قبیلے کی انا پر جب بھی

رکھ کے دستار، یہ سر کاٹ دئیے جاتے ہیں

ان علاقوں میں دعائیں نہیں ہوتیں مقبول

جن علاقوں میں شجر کاٹ دئیے جاتے ہیں

کوزہ گر! مجھ کو تو محنت سے نہ شہکار بنا

اب یہاں دستِ ہنر کاٹ دئیے جاتے ہیں

آریاں چلتی ہیں آنکھوں کی زمیں پہ جیسے

خواب اُگتے ہیں، اُدھر کاٹ دئیے جاتے ہیں

ہم بھی کیا حرفِ غلط ہیں کہ لکھے جاتے ہیں

اور پھر زیر و زبر کاٹ دئیے جاتے ہیں


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment