جس نے ہنسایا اس نے رُلانا تو تھا مجھے
اس عشق نے یہ دن بھی دِکھانا تو تھا مجھے
میں جانتا تھا میری اندھیروں سے جنگ ہے
سو خود کو اک چراغ بنانا تو تھا مجھے
یہ مختصر بھی تھی بڑی مشکل بھی تھی مگر
اس زندگی سے کام چلانا تو تھا مجھے
اچھا ہوا جہاں سے الجھنے میں کٹ گیا
یوں بھی یہ وقتِ ہجر بِتانا تو تھا مجھے
اہل جہاں کی ضد میں جہاں دار میں بنا
ان کو مقام عشق دکھانا تو تھا مجھے
اچھا ہوا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی
تجھ سے ملے بغیر بھی جانا تو تھا مجھے
تیمور!! اپنے درد کا احساس تب ہوا
جب اس نے یہ کہا کہ بتانا تو تھا مجھے
تیمور حسن
No comments:
Post a Comment