Thursday 30 June 2022

جو خواب میں ہوا تھا واقعی نہ ہو

 جو خواب میں ہوا تھا، واقعی نہ ہو

کہ میں پکارتا رہوں، کوئی نہ ہو

چراغ بے سبب تو رو نہیں رہے

جو شب گزر رہی ہے، آخری نہ ہو

جسے سکوتِ مرگ کا نشاں کہیں

یہ خامشی کہیں وہ خامشی نہ ہو

پڑی ہوئی ہے گرد سی جو وقت پر

یہ چشمِ خواب زاد سے گری نہ ہو

مجھے یہ حکم بھی سنا دیا گیا

کہ ناؤ میں مِرے سوا کوئی نہ ہو

یقیں بھری بہار کا بھی کچھ نہیں

اگر یہ شاخِ درد ہی ہری نہ ہو

مِرا معاملہ نعیم! اور ہے

اگر تِری نظر میں سرسری نہ ہو


نعیم گیلانی

No comments:

Post a Comment