کام سے بڑھ کر تھا جن کو جاہ و اکرام سے کام
ان کے کام اگر دیکھیں تو ہیں بس عام سے کام
جن کا کام بنانا چاہا ان سے بگڑ گئی
اسی لیے اب ہم رکھتے ہیں اپنے کام سے کام
کوئی نہ کوئی نئی مصیبت روز کھڑی کرتے ہو
ایک بھی دن کرنے نہ دیا ہم کو آرام سے کام
ابھی تو اس میں دیکھتے ہو دنیا بھر کے اوصاف
پوچھوں گا جس روز پڑے گا اس گلفام سے کام
لوگ گلی کوچوں میں بچارے ہو جاتے ہیں خوار
تم تو فقط کہہ دیتے ہو بالائے بام سے کام
زاہد! اس سے قبل کہ جانا ہو داتا کے پاس
ہو توفیق تو کچھ کر لو سر گنگا رام سے کام
اپنی کوشش تو ہوتی ہے اچھے شعر سنائیں
ورنہ چل جاتا ہے ناصر تیرے نام سے کام
تھوڑی دیر رُکے ہیں باصر ٹھنڈی چھاؤں میں ہم
پیڑ گِنے وہ باغ ہے جس کا ہمیں تو آم سے کام
باصر کاظمی
No comments:
Post a Comment