میرا کوئی دوست نہیں
چیخیں مجھے کبھی رہا نہیں کرتیں
مجھے معلوم ہے
ہر منظر میں ایک چیخ چھپی ہے
میں جہاں بھی جاتا ہوں
کوئی نہ کوئی چیخ مجھے پہچان لیتی ہے
میں اپنی خاموشی کی مخالف سمت
خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگتا ہوں
اسی بوکھلاہٹ میں چیخوں کے کئی جھنڈ
مجھے بِھڑوں کی طرح گھیر لیتے ہیں
بھاگتے ہوئے میں قبرستان میں پہنچ جاتا ہوں
جہاں ہر قبر میں ایک چیخ دفن ہے
مجھے دیکھ کر
چیخیں میرے گِرد ہوا میں تیرنے لگی ہیں
اور مجھ سے چیخ بن جانے کا مطالبہ کرتی ہیں
بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے
اب میرے ہاتھ بازوؤں سے گرنے والے ہیں
اور ہارنے کے لیے میرا کوئی دوست نہیں
میں محسوس کر رہا ہوں
میرا چیخوں سے بندھا ہوا جسم
جب گونجنے کے قریب ہو گا
میں کسی خشک دریا کے کنارے
سرخ رنگ میں لتھڑی چیخ بنا لوں گا
اور مٹی میری قبر بنانے میں مصروف ہو گی
زاہد امروز
No comments:
Post a Comment