Wednesday, 29 June 2022

میرا کوئی دوست نہیں مجھے معلوم ہے

 میرا کوئی دوست نہیں

چیخیں مجھے کبھی رہا نہیں کرتیں 

مجھے معلوم ہے

ہر منظر میں ایک چیخ چھپی ہے

میں جہاں بھی جاتا ہوں 

کوئی نہ کوئی چیخ مجھے پہچان لیتی ہے 

میں اپنی خاموشی کی مخالف سمت 

خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگتا ہوں 

اسی بوکھلاہٹ میں چیخوں کے کئی جھنڈ 

مجھے بِھڑوں کی طرح گھیر لیتے ہیں 

بھاگتے ہوئے میں قبرستان میں پہنچ جاتا ہوں 

جہاں ہر قبر میں ایک چیخ دفن ہے 

مجھے دیکھ کر 

چیخیں میرے گِرد ہوا میں تیرنے لگی ہیں 

اور مجھ سے چیخ بن جانے کا مطالبہ کرتی ہیں 

بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے 

اب میرے ہاتھ بازوؤں سے گرنے والے ہیں 

اور ہارنے کے لیے میرا کوئی دوست نہیں 

میں محسوس کر رہا ہوں 

میرا چیخوں سے بندھا ہوا جسم 

جب گونجنے کے قریب ہو گا

میں کسی خشک دریا کے کنارے 

سرخ رنگ میں لتھڑی چیخ بنا لوں گا 

اور مٹی میری قبر بنانے میں مصروف ہو گی


زاہد امروز 

No comments:

Post a Comment