تو کہاں کہاں سے بڑھا گیا میری داستاں میرے قِصہ گو
کوئی تیسرا تو نہ تھا کبھی یہاں درمیاں میرے قصہ گو
یہ عذاب اس سے بھی ہے سوا کہ بچھڑ کے تجھ سے میں آؤں تو
میرے تن سے چُنتے ہیں جس طرح میری کرچیاں میرے قصہ گو
یہ کمال حسنِ بیاں کا ہے کہ بیانِ حسن کا سحر ہے
کبھی مل جو بیٹھیں تو دیکھنا تِرے رازداں میرے قصہ گو
کسی شخص کو جو پسند نئیں میری انگلی اب بھی اسی پہ ہے
اسی شخص پر ہی اٹھائیں کیوں نہ پھر انگلیاں میرے قصہ گو
میں غلط روی میِں بھی نامور نہیں ہو سکا تو غلط نہیں
کہ یہاں بھی کر گئے عادتاً وہی غلطیاں میرے قصہ گو
کوئی غم شناسا تو ہے نہیں کہ پڑھے جو چہرے سے حالِ دل
کریں شوق سے مِری خامشی کی بے قدریاں میرے قصہ گو
نہ خزاں رُتوں کے گُلاب ہیں نہ بہارِ تازہ کے خواب ہیں
میرا کیا کسی سے معاملہ، کرو مرضیاں میرے قصہ گو
ابرار شاہ
No comments:
Post a Comment