نہ بتوں کے نہ اب خدا کے رہے
ہم کہیں کے نہ دل لگا کے رہے
فتنے کیا کیا نہ وہ اٹھا کے رہے
ہم بھی کوچے میں ان کے جا کے رہے
کر گئی وہ نگاہ اپنا کام
ہم بھروسے پہ اتقا کے رہے
نام میرا جہاں لکھا پایا
ضد تو دیکھو کہ وہ مٹا کے رہے
اس نے ہر چند عذر خواب کیا
حال دل ہم مگر سنا کے رہے
لے اڑا ان کو شوق غیر کے گھر
ہم تجسس میں نقش پا کے رہے
اپنی ہستی ہے اس طرح رونق
جیسے کوئی سرا میں آ کے رہے
رونق ٹونکوی
No comments:
Post a Comment