Thursday 23 June 2022

نہ بتوں کے نہ اب خدا کے رہے

 نہ بتوں کے نہ اب خدا کے رہے

ہم کہیں کے نہ دل لگا کے رہے

فتنے کیا کیا نہ وہ اٹھا کے رہے

ہم بھی کوچے میں ان کے جا کے رہے

کر گئی وہ نگاہ اپنا کام

ہم بھروسے پہ اتقا کے رہے

نام میرا جہاں لکھا پایا

ضد تو دیکھو کہ وہ مٹا کے رہے

اس نے ہر چند عذر خواب کیا

حال دل ہم مگر سنا کے رہے

لے اڑا ان کو شوق غیر کے گھر

ہم تجسس میں نقش پا کے رہے

اپنی ہستی ہے اس طرح رونق

جیسے کوئی سرا میں آ کے رہے


رونق ٹونکوی

No comments:

Post a Comment