اداسی
تجھے خبر ہے
تُو نے جس آنکھ کی رعنائی میں ویرانی بکھیری ہے
اس کی چلمن کے اٹھنے پر زندگی اِٹھلا کر واری ہوا کرتی تھی
تُو نے جس دل کی امیری کو فقیری دی ہے
اس کی ہر لے کی سرمستی پر
باغوں کی تتلیاں پروانہ رہا کرتی تھیں
تُو نے جن ہونٹوں کی ہنسی کو نوچ کر مسلا ہے
وہ جب ہلتے تھے تو بہاروں کی خبر لاتے تھے
تُو نے جس کی صبحوں میں رات کی تاریکی اتاری ہے
اس کی ہستی کی سپیدی کو دن کا چڑھتا لمحہ
اپنے لمحوں کی پاکیزہ سپیدی دان کیا کرتا تھا
اداسی
یہاں آ
تیری جرأت پر گلے لگ کر تیری پِیٹھ کو تھپکوں
یہاں آ
تجھے دکھاؤں
وہ کالی آنکھیں
وہ قلندر ہوتا دل
اور دکھاؤں تجھے
تیرے بخشے سارے زخموں کے بد رنگے وہ رنگ
جس نے ہستی کے پلستر کو جابجا اُکھیڑ کر وجود کو
کھنڈر کے تمغے کی کیل سے ٹھونک کر روح میں گاڑا ہے
اداسی
تیری نسبت سے جڑی ذات نے زندگی کو اکثر موت پکارا ہے
اداسی
کیا تُو دیکھے گی
تُو گر دیکھے گی، روئے گی
ملال سے ہاتھ مسل کر پکارے گی
ہائے! یہ میں نے کس آنکھ کو رُلا کر
کس دل کو دُکھایا ہے
اداسی
تُو
پشیمان ہو کر اگر روئے گی
میں تیری گیلی گلابی آنکھوں پر
سکون کی آیت پھونکوں گی
پہلو سے نکل کر مقابل جب تُو چل کر آئے گی
میں تیرے زخم خوردہ پیروں پہ
میرے لمس کی مسیحائی بخشوں گی
اداسی
گر تُو
ان کالی آنکھوں میں پھر سے جگنو جو بھر دے تو
میں تجھے زندگی پکار کر
تیری مسکراہٹ سے لپٹ جاؤں گی
اداسی
میں
تیرے لیے
بہت سا مسکاؤں گی
اداسی
جو اگر تُو۔۔۔۔۔
فرح طاہر
No comments:
Post a Comment