نمکین ہے کہیں تو کہیں بے نمک، نمی
اُتری ہوئی ہے مجھ میں بڑی دور تک نمی
ہوتا ہے ہجر پانچ عناصر پہ مشتمل
امید، انتظار، اداسی، کسک، نمی
پھر سوچا، عنقریب تہی چشم ہو نہ جاؤں
پہلے تو میں لٹاتا رہا، بے دھڑک، نمی
مجھ میں چھپے ہنر کو کیا غم نے یوں عیاں
مٹی پہ گر کے جیسے اڑا دے مہک، نمی
ساکن ہیں، چپ ہیں، زرد ہیں میں اور یہ پہاڑ
ہم میں بس ایک چیز نہیں مشترک؛ نمی
تخلیق کے لیے یہ فضا سازگار ہے
ہلکی پھوار، خامشی، خالی سڑک، نمی
گریے نے یوں بھرے ہیں ہماری جلن میں رنگ
جیسے کرن کو چھو کے بنا دے دھنک، نمی
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment