ساتھ میرے کبھی دو روز گزارے ہوتے
تیری آنکھوں میں بھی دو چار ستارے ہوتے
میرے کالر پہ بھی اک پھول دکھائی دیتا
تیری چادر پہ بھی آکاش کے تارے ہوتے
ڈوبتا میں بھی تیرے پیار کے دریاؤں میں
دور تجھ سے بھی زمانے کے کنارے ہوتے
جن کے سینے میں دھڑکتا تھا زمانہ سارا
کاش اے کاش کہ وہ صرف ہمارے ہوتے
تلخ ہوتی نہ اگر یاد تِری قُربت کی
میری تنہائی کے یہ دن تو نہ بھارے ہوتے
گر تِرے حسن کی بینائی عطا ہو جاتی
میرے ہمراہ جہاں بھر کے نظارے ہوتے
ہم تو فرہاد! زمانے میں نہ جی سکتے تھے
تم تو اس زیست کو دنیا میں نہ ہارے ہوتے
عارف فرہاد
No comments:
Post a Comment