Tuesday, 28 June 2022

ساتھ میرے کبھی دو روز گزارے ہوتے

 ساتھ میرے کبھی دو روز گزارے ہوتے

تیری آنکھوں میں بھی دو چار ستارے ہوتے

میرے کالر پہ بھی اک پھول دکھائی دیتا

تیری چادر پہ بھی آکاش کے تارے ہوتے

ڈوبتا میں بھی تیرے پیار کے دریاؤں میں

دور تجھ سے بھی زمانے کے کنارے ہوتے

جن کے سینے میں دھڑکتا تھا زمانہ سارا

کاش اے کاش کہ وہ صرف ہمارے ہوتے

تلخ ہوتی نہ اگر یاد تِری قُربت کی

میری تنہائی کے یہ دن تو نہ بھارے ہوتے

گر تِرے حسن کی بینائی عطا ہو جاتی

میرے ہمراہ جہاں بھر کے نظارے ہوتے

ہم تو فرہاد! زمانے میں نہ جی سکتے تھے

تم تو اس زیست کو دنیا میں نہ ہارے ہوتے


عارف فرہاد

No comments:

Post a Comment