Saturday, 25 June 2022

ایلیئنز یہ کیسے لوگ ہیں

 ایلیئنز


یہ کیسے لوگ ہیں

اور کون سی نگری سے آئے ہیں

نجانے کون سے خطے کی بھاشا بولتے ہیں یہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا

بدن بھورے

زبانوں سے ٹپکتی رال

ان کے سر ہیں ایسے

جیسے، ننگی کھال

آنکھیں، خون سے بھی لال

ان کے ہاتھ

بالکل پاؤں جیسے ہیں

کسی سیّال میں لتھڑے ہوئے ناخن

لٹکتی توند، لمبے دانت ہیں ان کے

اگر چھینکیں تو ان کا

ناک سے ادراک جھڑتا ہے

بس اتنا جانتا ہوں میں

یہ زندہ ماس کھاتے ہیں

مگر اک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے 

مجھے کس جرم کی پاداش میں 

ان کے جزیرے پر اُتارا ہے

مرے تو خوف سے ٹخنے بھی گیلے ہو رہے ہیں

تعجب ہے

مجھے بھی کچھ نہیں کہتے

یہ جب سے دھوپ کا چشمہ لگایا ہے

مجھے سب ٹھیک دِکھتا ہے

کہیں سے آئینہ لاؤ

مبادا میری ان سے شکل ملتی ہو


سعید دوشی

No comments:

Post a Comment