ایلیئنز
یہ کیسے لوگ ہیں
اور کون سی نگری سے آئے ہیں
نجانے کون سے خطے کی بھاشا بولتے ہیں یہ
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
بدن بھورے
زبانوں سے ٹپکتی رال
ان کے سر ہیں ایسے
جیسے، ننگی کھال
آنکھیں، خون سے بھی لال
ان کے ہاتھ
بالکل پاؤں جیسے ہیں
کسی سیّال میں لتھڑے ہوئے ناخن
لٹکتی توند، لمبے دانت ہیں ان کے
اگر چھینکیں تو ان کا
ناک سے ادراک جھڑتا ہے
بس اتنا جانتا ہوں میں
یہ زندہ ماس کھاتے ہیں
مگر اک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے
مجھے کس جرم کی پاداش میں
ان کے جزیرے پر اُتارا ہے
مرے تو خوف سے ٹخنے بھی گیلے ہو رہے ہیں
تعجب ہے
مجھے بھی کچھ نہیں کہتے
یہ جب سے دھوپ کا چشمہ لگایا ہے
مجھے سب ٹھیک دِکھتا ہے
کہیں سے آئینہ لاؤ
مبادا میری ان سے شکل ملتی ہو
سعید دوشی
No comments:
Post a Comment