Thursday 30 June 2022

آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے

 آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے

زندگی الزام ہو کر رہ گئی ہے

خواب تعبیروں کے معنی پوچھتے ہیں

نیند بے انجام ہو کر رہ گئی ہے

یاد بھی قاتل کی ہے شمشیرِ قاتل

رات خوں آشام ہو کر گئی ہے

وقت نے دستار کی صورت بدل دی

اب تو یہ احرام ہو کر رہ گئی ہے

زہر میں ڈوبی ہوئی اک مسکراہٹ

موت کا پیغام ہو کر رہ گئی ہے

ناچتی ہیں دھان کے کھیتوں میں پریاں

یہ گھٹا انعام ہو کر رہ گئی ہے

گفتگوئے دل بہ عنوانِ محبت

سر بسر الزام ہو کر رہ گئی ہے

گردشِ جام و سبُو کو کیا ہوا ہے

گردشِ ایام ہو کر رہ گئی ہے


قیصر صدیقی

No comments:

Post a Comment