آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے
زندگی الزام ہو کر رہ گئی ہے
خواب تعبیروں کے معنی پوچھتے ہیں
نیند بے انجام ہو کر رہ گئی ہے
یاد بھی قاتل کی ہے شمشیرِ قاتل
رات خوں آشام ہو کر گئی ہے
وقت نے دستار کی صورت بدل دی
اب تو یہ احرام ہو کر رہ گئی ہے
زہر میں ڈوبی ہوئی اک مسکراہٹ
موت کا پیغام ہو کر رہ گئی ہے
ناچتی ہیں دھان کے کھیتوں میں پریاں
یہ گھٹا انعام ہو کر رہ گئی ہے
گفتگوئے دل بہ عنوانِ محبت
سر بسر الزام ہو کر رہ گئی ہے
گردشِ جام و سبُو کو کیا ہوا ہے
گردشِ ایام ہو کر رہ گئی ہے
قیصر صدیقی
No comments:
Post a Comment