یہ ممکن ہے کہ اک دن ٹوٹ جائے آزمانے سے
انا وہ شاخ ہے جو جھک نہیں سکتی جھکانے سے
مِری بھی فکر کو جانے کہاں سے پر نکل آئے
پرندے بھر رہے تھے جب اڑانیں آشیانے سے
مِرے اندر ٹراموں کا، بسوں کا شور رہتا ہے
کبھی یہ دل دھڑکتا تھا کسی کے آنے جانے سے
کوئی منظر ہو اوروں کی طرح میں رو نہیں سکتا
غلط مت سوچنا اے دوست! میرے مسکرانے سے
یہ بہتر ہے کہ اس کی بددعائیں آسماں چُھو لیں
کہ اب تو تنگ میں بھی آ گیا ہوں اس کے طعنے سے
شمیم قاسمی
No comments:
Post a Comment