اک دِیا سا کفِ امید پہ دھر جاتے ہو
خواب بن کر چلے آتے ہو گزر جاتے ہو
تم نے سمجھا ہی نہیں آنکھ میں ٹھہرے دکھ کو
تم بھی ہنستی ہوئی تصویر پہ مر جاتے ہو
تمہیں اندازہ نہیں آگ کے پھیلاؤ کا
روز جنگل کی طرف لے کے شرر جاتے ہو
چھاؤں دیتے ہو نہ فرصت سے برستے ہو کبھی
صرف بادل کی طرح سر سے گزر جاتے ہو
اس محبت کے میں آزار اٹھاؤں کیوں کر
جس کے اظہار سے ڈرتے ہو، مُکر جاتے ہو
دل کی تنہائی کا تم سے بھی مداوا نہ ہوا
اک نئے زخم سے اس زخم کو بھر جاتے ہو
یونہی خوابوں کا محل ریت پہ تعمیر کیا
تم تو ساحل کی ہواؤں سے بھی ڈر جاتے ہو
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment