Wednesday 22 June 2022

پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے

 پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے

سُندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے

چُھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن

آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے

چاند تِرے ماتھے سے اُگتا ہے چندا

رات مِری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے

ہاتھوں میں ریکھائیں پیلے موسم کی

سبز پری خوابوں میں رکھی جاتی ہے

رنگ جدا کرنے کے لیے چشم و لب کے

قوسِ قزح اندھوں میں رکھی جاتی ہے

ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی

تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے

چُھو لیتی ہے جو تیرے نازک پاؤں

وہ مٹی گملوں میں رکھی جاتی ہے


دانیال طریر

No comments:

Post a Comment