Thursday 23 June 2022

حریم شوق کے یہ بام و در بلا کے ہیں

حریمِ شوق کے یہ بام و در بلا کے ہیں

فریبِ دامِ فسونِ نظر بلا کے ہیں

لباسِ خاک مرا خاکداں کی ہے میراث

فلک سے روح کے رشتے مگر بلا کے ہیں

اسیر کرتی ہے یہ کس قدر سہولت سے

نگاہِ شوق کے سارے ہنر بلا کے ہیں

یہ کہکشائیں ہیں منزل نہ کائنات نہ تو

ہمارے پاؤں سے لپٹے سفر بلا کے ہیں

میں آسماں سے پرے لے اڑی قفس اپنا

خدا کا شکر مِرے بال و پر بلا کے ہیں

ہر ایک جا نظر آتا ہے جلوۂ فرد

فسونِ صنعتِ آئینہ گر بلا کے ہیں

متاعِ سوزشِ ہجراں اثاث ناخن و زخم

مِرے رفیقِ جنوں چارہ گر بلا کے ہیں

حجاب میں ہے جہانِ دگر، ملال نہیں

ملال یہ ہے کہ ہم کم نظر بلا کے ہیں

یہ ساحلوں کو ڈبو دیں بس ایک لحظے میں

سنو! بھنور یہ سبھی کینہ ور بلا کے ہیں

نہ آرزو ہے نہ حسرت نہ سوز ہے نہ ملال

سکوت میں تِرے آشفتہ سر بلا کے ہیں

جو آستینوں میں خنجر چھپائے بیٹھے ہیں

تِری نگاہ میں وہ معتبر بلا کے ہیں

نشانِ پا ہیں مِرے، ساتھ اب تلک انجم

کہ با وفا یہ مِرے ہمسفر بلا کے ہیں


انجم عثمان

No comments:

Post a Comment