آنکھوں سے بچپنے کی شرارت چلی گئی
میٹھی سی اس زبان کی لُکنت چلی گئی
دل میں رفاقتوں کے مطالب سما گئے
بے لوث جو کبھی تھی محبت، چلی گئی
دنیا کے کھیل نے ہمیں مصروف کر دیا
مکتب کے بعد کھیل کی فرصت چلی گئی
رُوٹھے تھے اب جو یار تو برسوں گزر گئے
پل بھر میں مان جانے کی عادت چلی گئی
فصیح احمد
No comments:
Post a Comment