Wednesday 22 June 2022

پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا

 پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا

ملا وہ ہنس کے تقاضا یہ دشمنی کا تھا

کھڑا کنارے پہ میں اپنی تھاہ کیا پاتا

کہ یہ معاملہ عرفان و آگہی کا تھا

میں اس کے سامنے غیروں سے بات کرتا رہا

اگرچہ سودا مِرے سر میں بس اسی کا تھا

کئی عمارتوں کو اپنا گھر سمجھ کے جِیا

مِرے مکان میں فُقدان روشنی کا تھا

جو ساتھ لائے تھے گھر سے وہ کھو گیا ہے کہیں

ارادہ ورنہ ہمارا بھی واپسی کا تھا


آفتاب شمسی

No comments:

Post a Comment