پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا
ملا وہ ہنس کے تقاضا یہ دشمنی کا تھا
کھڑا کنارے پہ میں اپنی تھاہ کیا پاتا
کہ یہ معاملہ عرفان و آگہی کا تھا
میں اس کے سامنے غیروں سے بات کرتا رہا
اگرچہ سودا مِرے سر میں بس اسی کا تھا
کئی عمارتوں کو اپنا گھر سمجھ کے جِیا
مِرے مکان میں فُقدان روشنی کا تھا
جو ساتھ لائے تھے گھر سے وہ کھو گیا ہے کہیں
ارادہ ورنہ ہمارا بھی واپسی کا تھا
آفتاب شمسی
No comments:
Post a Comment