Sunday 12 June 2022

ایک حسرت ہے اندھیرا ہے فغاں ہے میں ہوں

 ایک حسرت ہے، اندھیرا ہے، فغاں ہے، میں ہوں

رات اجڑے ہوئے کمرے میں رواں ہے، میں ہوں

ان خد و خال پہ اتری ہوئی وحشت کو سمجھ

آئینے! تجھ میں کوئی اور کہاں ہے، میں ہوں

ماند ہوتے ہوئے سایوں کے جلو میں لرزاں

یہ جو اک شخص مِرے ہمسفراں ہے میں ہوں

حرف پاروں میں سلگتا ہوا غم ہے، تُو ہے

راکھ ہوتی ہوئی سگریٹ کا دھواں ہے میں ہوں

چند بکھرے ہوئے اوراق مِری میز پہ ہیں

نوحۂ سینۂ غفلت زدگاں ہے، میں ہوں

اڑتا پھرتا ہوں بگولا سا زمیں تا بہ فلک

ایک غم ہے جو کہیں خانہ بجاں ہے میں ہوں

خستگی تیرا برا ہو کہ بدل ڈالا مجھے

لوگ کہتے ہیں فلاں ابن فلاں ہے، میں ہوں


عبدالرحمان واصف

No comments:

Post a Comment